پیر, فروری 14, 2011

حرف آغاز

0 تبصرے

نئے سال کی آمد پر ہم تمام طلباءوطالبات اورریسرچ اسکالرس کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ سال گذشتہ کی طرح اس سال بھی بزم ادب شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی کے زیر اہتمام ماہنامہ میگزین”پرواز“ کی اشاعت جاری ہے۔ ”پرواز“ نوعمری کے ساتھ ساتھ پختگی کی جانب گامزن ہے۔ اس کا ہرشمارہ انفرادیت رکھتا ہے کیونکہ شعبہ کے تمام طلباءاپنی تخلیقات کے ذریعے اس میگزین کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوشاں ہیں۔ بزم ادب کے اراکین ان کی محنت وجستجوکو سلام کرتے ہیں۔ اللہ انہیں ہمیشہ خوب سے خوب تر لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دوستو!بزم ادب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہرطالب عالم کو کچھ نیا سیکھنے کاموقع ملتا ہے۔ ہم ایسے دور سے گزررہے ہیں جہاں علمی استعداد کے ساتھ ساتھ تحریری وتقریری اورلسانی خطابانہ انداز پر بھی عبورہونا ضروری ہے تاکہ علم وادب کے ساتھ ساتھ اپنی زبان پربھی مہارت ہو۔جب ہم کسی سے علمی گفتگوکرتے ہیں توہماری زبان لڑکھڑاتی ہے۔ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔جبکہ ہم میں سے ہرطالب علم سامنے والے کے ہر سوال کا جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم جواب نہیں دے پاتے کیونکہ ہم اپنے اندرہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ احساس کمتری مبتلا ہوجاتے ہیں کہ کہیں ہم سے کوئی غلطی سرزدنہ ہوجائے۔ ایسے ہی موقع پربزم ادب آپ کا استقبال کرتا ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے اپنی ہچکچاہٹ دورکرسکیں۔      اس لئے دوستو !اس میں بھرپور حصہ لیں۔ بزم ادب کے تحت بیت بازی، غزل سرائی، مقالہ نگاری، بحث ومباحثہ ، سوال وجواب کے علاوہ مختلف پروگراموں کے ذریعہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔اسی بزم ادب کے تحت آج سے چھ سال قبل ”پرواز“ نامی میگزین کا اجراءہوا تاکہ طلباءوطالبات علمی، تہذیبی وثقافتی علوم کے علاوہ تحریری میدان میں بھی اپنے قدم کو ثابت رکھ سکیں اور خلقانہ صلاحیت پیدا کرسکیں۔ اس کے لئے ہمارے اساتذائے کرام نے ادبی وثقافتی پروگرام کے ساتھ ساتھ ہماری تحریروں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ”پرواز“ کی شکل میں پلیٹ فارم مہیاکرایا۔ تاکہ ہم طلباءوطالبات اپنے علمی جواہر ریزوں سے میگزین کومزین کرسکیں۔ جس سے ہماری تربیت بھی ہو اور تخلیقی ترفع سے آشنا بھی۔ ہم میں سے کتنے ایسے دوست احباب ہیں جو ہندوستان کے کئی رسائل وجرائد میں اپنے مضامین تسلسل کے ساتھ بھیجتے ہیں لیکن افوس کہ اس میں شائع تودور مضمون کو بھی پڑھا نہیں جاتا بلکہ ردی کی ٹوکری کے حقدار ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی موقع پر ہماری اور آپ کی تربیت کے لیے یہ” میگزین“ پرواز دست دراز ہے۔ آپ تمام حضرات سے التماس ہے کہ ہرطالب علم اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اوراپنے شعبہ کے اس میگزین کو معیاری رسائل کی فہرست میں لاکھڑا کریں۔            
                شکریہ                                   
                        محمدارشد                   
                          مدیر

میر تقی میر کا انتہائے غم

0 تبصرے

سرہانے میرکے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
  میراردوکے پہلے شاعر اورشاید آخری شاعر ہیں جنہوں نے زندگی جیسے موضوع پر نہایت سنجیدگی سے غورکیا ہے۔ میر کو بچپن سے شعر وسخن کا بے حدشوق تھا۔ بچپن ہی میں شعر کہنے لگے تھے۔ میرکی زندگی بڑی بے چارگی اور پریشان حالی میں گذری۔ دس سال کے تھے کہ والد کا سرسے سایہ اٹھ گیا۔ میر نے زندگی بھر غم اٹھائے اورپریشان حال رہے۔
 میر کی شاعری میں غم کا اظہار ملتا ہے ۔ان کے یہاں ذاتی غم عالم گیر حیثیت کے احساس سے بھرا ہوا ہے ۔ میر کے اس غم میں ان کے شعور کی جھلک نمایاں ہیں۔ میر کا غم ان کی ذات تک محدود نہیں وہ بےشتر بنی نوع انسان کا غم ہے ۔والد کے مرنے کے بعد میرنے جتنی پریشانیاں اورمصیبتیں اٹھائیں شاید ہی کسی شاعرنے اٹھائی ہوں گی۔
شاعرکے کلام کاایک بڑا معیار اس کے کلام کی تاثیر ہے۔ اگرچہ اس معیار پر میر کے کلام کو جانچاجائے توان کا مرتبہ شعراءمیں سب سے اعلیٰ پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعارمیں سوزوگداز پایا جاتاہے زبان سے نکلتے ہی دل میں اثرکرتے ہیں۔اور آج بھی لوگ ان کے کلام کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ اگرچہ میر کے اشعار کے الفاظ ملائم دھیمے، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش ہے۔ غضب کادرد چھپاہے۔ الفاظ کی سلاست اورترتیب کی سادگی لوگوں کومتاثرکرتی ہے۔
میر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
ہمارے آگے تراجب کسی نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
بڑی سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
میر کا کلام عشقیہ ہیں لیکن ان میں اکثر ایسے اشعاربھی ملیں گے جن میں کوئی اخلاقی یا حکیمانہ نکتہ خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی طبیعت کے دورنگ ہیں۔ میر کے اشعار عاشقانہ ہوں یا حکیمانہ ،ان میں مایوسی کی جھلک پائی جاتی ہے۔
جواس شورسے میر روتا رہے گا
توہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں ہے مگرشعر کس قدر پر درد ہیں۔ دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیزبنادیا ہے ۔ یہ سلاست اوریہ انداز بیان میرکے کلام کا حصہ ہے لیکن پھر بھی میر زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
خوش رہاجب تلک رہا جیتا
میرمعلوم ہے قلندر تھا
میر کو کسی بات کا صدمہ نہیں وہ قسمت پرشاکر ہیں ۔ان کوہرشام کی سحر کا یقین ہے۔
کیا شب ہوئی زمانے میں جو پھرنہ ہوا روز
کیا ای شب فراق تجھی کو سحر نہیں
یہ سحر کا یقین اس آدمی کونہیں ہے جو زندگی کے آسان راستوں سے ہوکر گزرا ہے بلکہ یہ اس شخص کوہے جوزندگی کے دشوار گزار راستوں سے گزر کرآیا ہو۔ کلیات میر میں ہم کولاتعداد ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے میر کی زندہ دلی کا ثبوت بہم پہنچتا ہے۔ ان کے بہت سے اشعار میں مزاح کی چاشنی اس حدتک ہے کہ وہ اپنے آپ میں بڑی فراخ دلی سے ہنستے ہیں۔
پھرمیر آج مسجدِ جامع کے تھے امام
داغ شراب دھوتے تھے کل جانماز کا
میر نے اپنی زندگی اوروقت کی سختیوں کے سامنے کبھی ہارنہیں مانی اس لئے ان کے یہاں غم اٹھانے کاکام بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ میر نے اپنی شاعری میں عظمت انسانی کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے کلام میں غم اوردردمندی دبستان کی خصوصیت ہے۔ میر نے انسان اور عشق دونوں کا بلند تصور اپنی شاعری میں پیش کیاہے۔
                    تبسم پروین
                      ٭٭٭

عزیز احمد کی ناول نگاری

0 تبصرے


          عزیز احمد اردوناول نگار میں اپنا ایک مخصوص ومنفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے متعددناولوں کے ذریعے اردو ناول نگاری کی روایت میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ ان کے ناولوں میں ہوس، شبنم، ایسی بلندی ایسی پستی، گریز،آگ، وغیرہ ہے۔ جس پرایک لطیف رومانی احساس کا رفرماہے۔ بعض ناولوں میں جیسے: ہوس، میں یہ رومان جنسی ہےجان کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ ان کے ابتدائی ناولوں میں یہ چیزیں دیکھنے کوملتی ہیں لیکن جیسے جیسے لمحات گزرتے ہیں رومان اور جنس کے اشتراک سے سماجی شعور اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ناولوں میں کسی نہ کسی سماجی مسئلے کواجاگر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
عزیزاحمد کے ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت ،گریز،کوحاصل ہے۔ جس میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی کو بیان کیاہے جو آئی سی ایس کے لئے منتخب ہوتا ہے ۔وہ اس کے ذریعے انگلستان، یورپ کی سیر کرتاہے۔ ناول میں ۶۳۹۱ءسے لےکر ۲۴۹۱ءتک کے زمانے کو دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں دوتہذیبوں کا تصادم ہے۔ اس عہدکے نوجوانوں کی طرح نعیم کی ذہنیت بھی یورپ جاکر تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے اندر زندگی کی عیش پرستی اورلذت کوشی کو سمونے کی کیسی کیسی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے دیس بدیس گھومتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ کاماحول اس پرپوری طرح غالب نظر آتاہے۔ ایک دل پھینک نوجوان ہونے کے ناطے عورت محض اس کے لیے کشش جنس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وہ خوبصورت عورتوں کے ارد گرد منڈلاتارہتا ہے۔ لیکن ان میں سے وہ کسی کو بھی اپنا نہیں پاتا۔ شایداس لئے کہ اسے ایک مکمل اورخاص عورت کی تلاش ہے یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں کئی عورتوں کے کردار آتے ہیں۔ جن میں مغرب ممالک کی عورتیں زیادہ ہیں۔ جس کی وجہ سے رومان اورجنس کی شدت نعیم کے فکر پر حاوی نظرآتی ہے۔ اس حدتک کہ ناول کے معاشی اورسیاسی پس منظر میں بھی جنسی حقائق غالب نظر آتے ہیں۔
نعیم زندگی کی تلخ حقیقتوں اوریہاں تک کہ وہ محنت اورعشق کی تلخیوں سے بھی گریز کرتا ہے اوربیسویں صدی کے بدلتے ہوئے اہم رجحانات کی آئینہ داری کرتاہے۔ اس کے اندر کسی طرح کی بندش نہیں ہے۔ نہ اخلاقی اورنا ہی مذہبی قدروں کی پاسداری۔ اس کی حالت ایک ایسے نوجوان کی سی ہے جوکشمکش اورتذبذب کاشکارہے۔ اسے خود نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے۔ وہ سائنسی ایجادات اور نئے علوم وفنون سے واقف ہے۔ لیکن زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یورپ کی چمک دمک سے بھی زیادہ متاثرنہیںہوپاتا۔ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان بھی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں سے دوچار تھا اورایسے موقع پرنئے علوم وافکار کی آمد تھی۔ یہ تبدیلیاں اپنی طرف جدید ذہنوں کومتاثر کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کاہیرونعیم دنیائے جدید علوم وفنون سے واقف نظر آتاہے۔
نعیم کاکردار اس عہد کے ایک ایسے پڑھے لکھے نوجوان کا کردار ہے جو سماجی اورتہذیبی اعتبار سے دوراہے پرکھڑا ہے ۔ مغربی تہذیب کی چمک دمک لیکن ساتھ ہی اس کا کھوکھلا پن ظاہرتاًمشرق کی روایت پرستی ہے لیکن اس کے کردار کی مضبوطی بھی عیاں ہے۔ تبدیلی کے اس دوراہے پران دنوں نوجوانوں کے جومسائل تھے۔ نعیم ان کی نمائندگی کرتاہے۔ ناول میں ہرکردار اورہر واقعے کوبڑے اچھے ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔
عزیزاحمدنے اپنے ناول میں جنسی پہلووں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو بھی بے نقاب کیاہے اوراس کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ناول نگار نے جنسی میلان کا مواد یورپ سے لیاہے ۔ کیونکہ یہ ماحول مشرق میں بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے جوآزادی یورپ میں ہے وہ ہندوستان میں نہیں تھی۔
گریز‘دوعظیم جنگوں کے پرآشوب دورکی کہانی ہے۔
الغرض عزیز احمد نے جدت پسندی کایہ کارنامہ انجام دیاہے۔ انہوں نے ہندوستان اورغیرہندوستانی شہروں کے احوال کو بیان کیا ہے جہاں غیرملکی سیاحوں کی وجہ سے تہذیبی ٹکراوہوتاہے اور نئی تہذیب کی آمد ہوتی ہے۔ ان کے ناول ہراعتبار سی ایک نئے موڑکی نشاندہی کرتے ہیں اورزندگی کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
گریزکے بارے میں علی عباس حسینی لکھتے ہیں۔کہ
اس ناول نے پہلی دفعہ ہماری زبان میں یورپ کو اس کے سیاسی اور اقتصادی اورجنسی انداز کو ہندوستانی نقطہ نظرسے پیش کیا ہے۔

                                     وسیمہ سلطانہ
                                                                                            ریسرچ اسکالر

                                   ٭٭٭

جمہوری حکومت میں رائے عامہ کی اہمیت

0 تبصرے



موجودہ دور جمہوریت کادورہے ۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت اس نظام حکومت میں سرکارکی تشکیل اورپالیسیاں عوام کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔ اس لئے جمہوریت میں رائے عامہ کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگرجمہوری حکومت عوام کی مرضی کے خلاف کام کرنے لگے تووہ عوام کی حکومت نہیں رہتی ہے۔ اس لئے جمہوری حکومت کوعوام سے رابطہ رکھنا پڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ کو جمہوریت کی بنیاد کہاجاتاہے۔ ہمیں یہاں رائے عامہ کا اصل مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ عام بول چال کی زبان میں رائے عامہ کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام ترلوگ کسی خاص مسئلے یا معاملے کے بارےمیں کوئی خاص رائے رکھتے ہوں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آتاہے کہ تھوڑے بہت لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔ اس لئے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا رائے عامہ سے مراد اکثریت کی رائے ہے؟ لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ اکثریت کی رائے سب کے مفاد کے مطابق نہ ہو بلکہ کسی خاص گروہ یا طبقہ کے مفاد کے مطابق ہو۔ ایسی رائے ،رائے عامہ نہیں کہی جاسکتی۔ بسااوقات اقلیت کی رائے مفادعامہ کے لئے مفید ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اقلیت کی رائے کو رائے عامہ کہا جاتاہے۔ رائے عامہ درحقیقت اس رائے کوکہتے ہیں جو پورے ملک کی بھلائی کے لئے ہو۔ بہ لحاظ اس کے کہ وہ اکثریت کی رائے ہے یا اقلیت کی ۔ اسے ہم General willبھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کی بنیاد جبراورسختی پرنہیں ہوتی۔ رائے عامہ کے لئے اکثریت اوراقلیت کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگرصرف ایک شخص کی رائے مفادعامہ کے لئے ہوتواسے ہم رائے عامہ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے Lowellنے کہا ہے کہ رائے عامہ کے لئے اکثریت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ مفاد عامہ کا ہونا ضروری ہے۔
رائے عامہ اورجمہوریت میں بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ جمہوریت کی بنیاد رائے عامہ پرہوتی ہے ۔ بنیادی طورپررائے عامہ پر ٹکی ہوئی حکومت کو ہی جمہوریت کے نام سے جانا جاتاہے۔ Humeکا خیال ہے کہ سبھی حکومتیں چاہے وہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو ں اپنی طاقت کے لئے رائے عامہ پر ہی منحصر کرتی ہے۔ اس سلسلے میں Gassetکا کہناہے:
"Never has anyone ruled on eather by basing his rule essentially on any other thing than public opinion.
رائے عامہ کا اہم کام Legal Sovereignty اور Political Sovereigntyمیں مناسب تعلق بنائے رکھنا ہے۔ حالانکہ بلاواسطہ جمہوریت کے اندران دونوں چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہوتاہے لیکن بالواسطہ جمہوریت میں یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ ہرقسم کی حکومت پراثرانداز ہوتی ہے۔ انقلاب فرانس اور انقلاب روس اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ موودہ جمہوری ملکوں میں جمہوراپنے نمائندوں کو منتخب کرکے قانون بنانے والی جماعتوں میں بھیجتے ہیں۔ انتخاب کے بعد جمہورکا تعلق نمائندوں سے بالکل منقطع نہیں ہوتا۔ لوگ برابر ان کے سامنے اپنی ضرورتیں اورتکالیف پیش کرتے رہتے ہیں۔ اگرحکومت کے افسریا عہدیدار کسی قسم کی زیادتی کرتے ہیں تولوگ اس کے خلاف بذریعہ تحریر وتقریر کے آواز بلند کرتے ہیں۔ وزیروں کے پاس Delegationلے کر جاتے ہیں ۔ پرامن تحریک چلاتے ہیں۔ اگرغلط قسم کے قانون پیش کئے جاتے ہیں تولوگ اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ جس میں احتجاجی جلسے جلوس، قانون شکنی اور Strikeکے حربے شامل ہوتے ہیں۔اس طرح ان کے مطالبے پورے کئے جاتے ہیں۔
لہٰذارائے عامہ کی وجہ سے حکومت کواپنے فیصلے بدلنے پڑتے ہیں۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی بنیادرائے عامہ ہے۔ رائے عامہ جمہوریت کا پہریدار ہوتا ہے۔ حکومت کی پالیسی اورقانون کی تشکیل ، شہریوں کے بنیادی حقوق، افرادکی آزادی، بین الاقوامی پالیسیاںسبھی پررائے عامہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے جمہوری حکومت میں رائے عامہ کی بڑی اہمیت ہے۔

                                آیات اللہ اشرف
                                                                             ایم فل سال اول

٭٭٭

موبائل فون آزادی بذریعہ ٹکنالوجی

0 تبصرے



آج کے اس جدید دورمیں جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں ہرچہارجانب سائنس اورٹکنالوجی نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ موبائل فون بھی سائنس وٹکنالوجی کی دین ہے۔ جس کو آج لوگ اپنی زندگی کا ایک جزولازم سمجھنے لگے ہیں۔کسی زمانے میں بیسک ٹیلیفون کنکشن وہ چیز تھی جس کے لئے لوگ سال بھر انتظار کرتے تھے۔کسی کے ہاں فون لگنے پرپورے محلے میں جشن منایا جاتا تھا۔ فون اپنی حیثیت دکھانے کا ذریعہ بھی ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وقت بدل گیاہے ٹیلی ریگولیٹر ی نے ملک میں ٹیلیفون اوربراڈبینڈ صارفین کے بارے میں اعدادوشمار جاری کیاتھا۔ ان کے مطابق تقرےبا ۰۹ لاکھ سے زائد لوگوں نے نئے موبائل کنکشن لیے اس دوران بیسک ٹیلیفون کے صارفین کی تعداد میں ترقی کے بجائے تنزلی آ رہی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں تقریبا 25.65کروڑ ٹیلیفون کنکشن ہیں۔ ان میں سے صرف 5کروڑ ٹیلیفون ہیں جبکہ 20کروڑ سے زائد موبائل ہیں۔
ٹیلیکام انڈسٹری کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ اب فکسڈلائن فون عام طورپر دفاتر میں ہی ملتے ہیں کیونکہ وہاں موبائل سے کام نہیں چلتا۔ آج سے غالبا 15سال قبل اگست 1995میں کولکاتہ میں پہلی مرتبہ موبائل فون کی گھنٹی بجی اس کے بعد پورے ملک میں ٹیلیفون کی دنیادیکھتے ہی دیکھتے بدل گئی ۔ اگرکوئی موبائل سروس پر دوائیڈر کمپنی یہ استشہار دکھاتی ہے کہ چائے کی دکان میں کام کرنے والا ملازم دبئی کے اپنے دوست سے موبائل پر بات کررہا ہے توماننا ہی پڑتاہے کہ ٹکنالوجی نے اعلیٰ اور ادنی کی دوری کم کردی ہے۔ اب ملک میں ہر100میں تقریبا 20لوگوں کے پاس موبائل ہے۔ ملک کے چھ لاکھ گاوں میں سے اب صرف 32ہزار گاوں ہی ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے سے محروم ہیں لیکن وہاں بھی عنقریب ٹیلیفون پہنچنے کی امید ہے۔ لیکن ٹیلیفون کی دنیا صرف اس معنی میں نہیں بدلی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے پاس فون پہنچ گیا ہے، بلکہ لوگوں کے گفتگوکرنے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے ۔سب سے بڑا بدلاوتویہی ہے کہ فکسڈلائن فون کا دورہی ختم ہوگیا ہے۔ شروعاتی دنوں میں ایک منٹ کی کال کے 32روپیہ لگتے تھے۔ اورانکمنگ کال کے لئے بھی اتنی ہی رقم خرچ ہوتے تھے اس زمانے کے سستے ہینڈسیٹ بھی دس پندرہ ہزار روپے کا تھا۔ ان دنوں سیل فون اپنی حیثیت دکھانے کا ذریعہ مانا جاتاتھا۔ دس سے پندرہ سال میں ہی سیل فون آٹوڈرائیورسے لے کر مچھلی پکڑنے والوں تک کی مٹھی میں آگیا ہے۔ دن بدن موبائل کی قیمتوں میں کمی آتی جارہی ہے۔
ہندوستان میں موبائل کی مقبولیت کا موازنہ چین سے کیا جاسکتاہے ۔ چین اور ہندوستان دونوں ہی ملکوں میں ہرمہینے پچاس لاکھ سے زائد نئے موبائل کنکشن خریدے جارہے ہیں۔ ہندوستان میں فکسڈ فون کے لئے کنکشن لینے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ وہیں چین میں چند سال قبل ایک سال میں 90لاکھ نئے فکسڈکنکشن لئے گئے۔ چین دنیا میں ٹیلیکام کا سب سے بڑا بازار ہے۔ ٹیلیکام سروس دینے والی سبھی چھ کمپنیاںسرکاری ہیں ان کے اس کارنامے کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں تقریبا 20کروڑکے مقابلے چین میں 80کروڑ ٹیلیفون کنکشن میں چین کے ہرسومیں سے غالبا 60لوگوں کے پاس فون کنکشن ہیں اس معاملے میں ہندوستان کو ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔

                                 محمدشاہد اقبال
                                                                             ایم۔اے،سال اول

٭٭٭

غزل

0 تبصرے

تمہارے ہی دل میں میرا ایک گھرہے
مگر دل یہ تیرا بہت مختصرہے

ذرا دوستی ہی نبھاکر تودیکھو
محبت توساری عمر کا سفرہے

جہاں سے چلے تھے وہیں آگئے ہم
یہ فیشن کی دنیا کا کیسا اثرہے

کبھی تومحبت سے آواز دے دو
تمہاری جدائی مرادرد سرہے

سنا ہے محبت تجھے ہوگئی ہے
کہو ماہرہ کیا یہ سچی خبرہے؟

                            ماہر ہ بیگم
                        (ایم۔اے سال اول)

غزل

0 تبصرے


اس دورکے انسان کا دستورنرالا
تہذیب ، تمدن نہ کردار ہے اعلیٰ

اب ذاتی مقاصد ہی ہے ہرشخص پہ ہاوی
اس لئے توہوتاہے گھوٹالے پہ گھوٹالہ

بے چین ہے انساں توبھلاچین کہاں ہو
گرلاکھ کھڑا کرے وہ دولت کا ہمالہ

بجرنگ سےنا ہو کہ سیمی ومجاہد
دہشت میں ہے انسان انساں کا نوالہ

نوروز کے یہ اشعار بھلا کون سنے گا
یہ شوق تو شاید کسی نے نہیں پالا
                                        کہکشاں نوروز(ایم۔اے

ڈھل گئی شام غم افسانہ

0 تبصرے


قیس ایم بی اے کے ٹسٹ میں شریک تھا۔ اپنی محنت کے سبب اسے قوی امید تھی کہ اس کا انتخاب ہوجائے گا۔ نتیجہ امیدوں کے عین مطابق نکلا۔ تبھی پاس ہی موجود یسریٰ پر اس کی نظر پڑی۔ قیس نے حسب عادت مسکراتے ہوئے اسے سلام کیا۔ یسریٰ نے جواب کے ساتھ قیس کی خیریت بھی دریافت کی۔ یسریٰ بھی ایم بی اے کے ٹسٹ میں شریک ہوئی تھی۔ قیس کے ساتھ نوٹس بورڈ پر اس کا بھی نام آویزاں تھا۔ داخلے کے مراحل کی تکمیل کے ساتھ دونوں کی کلاسز شروع ہوئیں ۔
 قیس اور یسریٰ کو ابتدائی کلاسوں سے ساتھ رہنے کے سبب کالج کے ماحول میں ایک دوسرے سے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اس طرح وہ محبت کے انجانے حصار میں بندھتے چلے گئے۔ قیس کے انداز گفتگو نے جہاں اس محبت کی نشو و نما کی، وہیں یسریٰ کے تبسم نے اس میں چار چاند لگائے اور رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بنتے چلے گئے۔
 قیس کی ذہانت اور محنت نے چند ہی دنوں میں اسے کلاس کا ممتاز طالب علم بنادیا۔ تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھی وہ شریک ہوتا رہا۔ اس کے بات کرنے کا انداز اتنا دلکش تھا کہ سامنے والااسے دیکھتا رہ جاتا۔
کالج کے فنکشن چل رہے تھے۔ قیس اور یسریٰ نے بیت بازی میں حصہ لیا تھا۔ دونوں کو پہلے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ فنکشن کے اختتام کے بعدانعامات کی تقسیم میں دونوں کا نام پکارا گیا۔ دونوں نے وائس چانسلر کے ہاتھوں سے انعام وصول کیا۔ فنکشن کے بعد یسریٰ نے اپنے والدین سے قیس کو ملایا۔ جب یسریٰ اپنے والدین کے ساتھ جانے لگی تو قیس نے یسریٰ سے انعام اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا۔ یسریٰ نے یہ انعام یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ اسے اپنے پاس ہی رکھو۔ یسریٰ کے والدین نے دونوں کی نگاہوں میں پنہاں محبت کو محسوس کیا۔ یسریٰ نے جلدی سے وہ انعام قیس کے ہاتھوں سے لے لیا اور خدا حافظ کہتے ہوئے والدین کے ہمراہ چل پڑی۔
یسریٰ کی دعوت پرایک دن شام کو قیس اس کے گھر پہنچا،یسریٰ کے والدین قیس سے نہایت خلوص اور تپاک سے ملے۔ باتوں باتوں میں جب قیس سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا گیا تو والدین کے نام پر اس کی نگاہیں خلا میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے آہستہ سے جواب دیا ”جی وہ لوگ بھی بخیر ہیں“ قیس کے چہرے کا تاثراچانک ہی تبدیل ہو گیا تھا۔یسریٰ سوچنے لگی کہ قیس کو اچانک کیا ہوگیا۔ قیس یسریٰ کے والدین کے سوالوں کا جواب بے دلی سے دیتا رہا۔ یسریٰقیس کو یکلخت دیکھے جا رہی تھی۔ چائے سے فراغت کے بعد قیس نے واپسی کی اجازت طلب کی تو اسے کھانے کے لیے روک لیا گیا۔ اپنے والدین کے ساتھ قیس کو اس طرح کے مواقع ہوش سنبھالنے کے بعد کبھی نصیب نہ ہوئے تھے،والدین کے ساتھ دسترخوان پر کبھی اس نے اپنے والدین کو اکھٹے نہیں دیکھا تھا،ایک ساتھ کھانا کھاتے اور بات کرتے ہوئے قیس کو بہت اچھا لگ رہا تھا،یسریٰ کی والدہ نے جب محبت کے ساتھ زبردستی قیس کی پلیٹ میںبریانی رکھی تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی منع نہ کرسکا، اس نے پہلی بار زندگی میں محبت کے اس روپ کا دیدار کیا تھا، قیساپنی محبت سے محروم قسمت اور یسریٰ کی محبتوں سے پر نور زندگی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
یسریٰ اور قیس کلاس میں ایک ساتھ رہتے، مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے مگر جب بھی یسریٰ اس کے اہل خانہ کی طرف بات کا رخ موڑتی تو قیس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوجاتی۔ایک دن کلاس ٹیچر کی عدم موجودگی پر جب کلاس کے سارے طالب علم خوش گپیوں میں مصروف تھے، مسکراتے ہوئے یسریٰ نے سوال کرڈالا۔قیس کیا میں تمہاری مسرت کا راز جان سکتی ہوں؟
قیس نے اسی رو میں جواب دیا’یسریٰ جسے تم جیسا دوست ملے اور وہ پھر بھی خوش نہ رہ سکے ایسا کبھی ہوسکتا ہے کیا؟۔ اس پر یسریٰ نے چہکتے ہوئے کہا قیس جب میں تم سے بات کرتی ہوں تو تمہارے اہل خانہ کے متعلق سوالات تم کو پژمردہ کردیتے ہیں۔ میں تمہارے والدین سے ملاقات کی متمنی ہوں۔“ تبھی کلاس ٹیچر آگئے اور ان کی بات ادھوری رہ گئی۔
 قیس کو زندگی نے عجب موڑ پر لا کھڑا کیا، وہ خاموش تھا۔ اس پر یسریٰ بول پڑی میں تم سے مل کر بہت خوش تھی کہ مجھے ایک اچھا دوست مل گیا ہے مگر یہ میرا وہم تھا، اس لیے کہ دوست دوست ہوتا ہے کچھ اور نہیں جب کہ ہم تو صرف کلاس میٹ ہیں۔ یسریٰ چیخ پڑی۔ اگر ہم اچھے دوست ہیں تو میری والدہ نے جب تم سے تمہارے والدین کی خیریت دریافت کی تو تم چپ کیوں رہے؟ تمہارا چہرہ فق کیوں ہوگیا۔آخر کیا وجہ ہے کہ میری ضد کے باوجود آج تک تم اپنے خاندان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بتا سکے۔ اگر تمہاری نظر میں یہ دوستی ہے تو یسریٰ ایسی دوستی کو خیر باد کہتی ہے۔ اتنا کہہ کر یسریٰ ایسی پیر پٹختی ہوئی چلی گئی۔قیس کو یسریٰ کے سوالا ت نے ساکت وجامد کردیا تھا۔امتحان آنے والے تھے قیس نے کئی بار یسریٰ کو منانے کی کوشش کی مگر یسریٰ نے شرط لگادی ، قیس جب بھی ہماری بات کی شروعات ہوگی توپہلے تمہارے خاندان کے بارے میں بات ہوگی اس کے بعد کوئی اور بات ہوگی۔۔۔۔۔ نہیں تو نہیں ہوگی۔۔۔۔
 تمہارے نزدیک جس چیز کی اہمیت زیادہ ہو ہو اس کو پکڑلو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔دونوں نے الگ الگ ہی امتحان کی تیاری شروع کردی۔ امتحان کے اختتام کے بعد قیس نے یسریٰ کو اپنے ماضی سے آگاہ کرنے کے لیے تحریر کا سہارا لیا۔
یسریٰ!
میں تمہاری ذہانت کی داد دیتا ہوں کہ تم نے میری مسکراہٹ میں چھپی تلخی کو محسوس کرلیا۔ ویسے جہاں محبت ہو وہاں ایک دوسرے کی پریشانیوں کا علم خودبخود ہو ہی جاتا ہے۔ تم نے بالکل درست سمجھا۔
ہاں یسریٰ ! میرا ماضی تاریک رہا ہے لیکن میری فطرت میں روشنی کی طلب ہے۔ میں نے اپنی مسکراہٹوں کے چراغ جلا کراپنے مقدر کی تاریکی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید کے چراغ، ہمیشہ میرے تاریک مقدر کو زندگی بخشتے رہے ہیں۔ میں اداس ضرور رہا مگر میری اداسی تھکن آمیز یاسیت کبھی نہ بن سکی۔ اگر تم یہ سوال اس وقت پوچھتیں جب میں تمہارے والدین سے ملا نہیں تھا تو شاید کہ میں تم کو اپنے منتشر ماضی سے تم کو باخبر کردیتا۔
یسریٰ جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ہاسٹل میں پایا۔ وقفے وقفے سے میرے والدین مجھ سے ملنے آتے رہے لیکن ان کو کبھی میں نے ایک ساتھ اپنے پاس نہیں دیکھا۔ امی آتیں تو ابو نہیں ہوتے۔ میں امی سے ابو کے بارے میں پوچھتا تو امی کہتیں کہ بیٹے وہ آفس میں ہیں۔ ابو آتے تو امی ان کے ساتھ نہیں ہوتیں۔ میں پوچھتا ابو امی آپ کے ساتھ نہیں آئیں؟ اس پر ابو جواب دیتے کہ بیٹے میں سیدھے آفس سے آرہا ہوں وہ گھر پر ہوںگی۔ میں بار ہا ان دونوں سے کہتا کہ آپ لوگ اتوار کو آیا کریں، اس دن میرے ساتھیوں کے والدین ان سے ملنے آتے ہیں اور میں اکیلا ہوتا ہوں۔مرے بار بار اسرار کے باوجود انہیں ایک ساتھ دیکھنے کی میری خواہش پوری نہ ہوسکی۔
گرمی کی تعطیل ہوگئی۔ امی مجھ کو اسکول سے لینے آئیں۔ میں بہت خوشتھا کہ شاید اب میں والدین کو اکٹھا دیکھ سکوں مگر شام ہونے پر بھی ابو کی شکل گھر میں نظر نہیں آئی، میں نے امی سے ابو کے بارے میں پوچھا تو وہ خاموش رہیں۔ تیسرے روز ڈرائیور مجھ ٹہلانے لے گیا، وہاں ابو کو دیکھتے ہی میں دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ میں ان کے ساتھ دوسرے گھر میں پہنچا تو وہاںصرف اور صرف ابو تھے۔ میںنے ابو سے امی کے بارے میں پوچھا مگر ابو چپ رہے۔ اس طرح میں والدین کے درمیان بی پنڈولم کی طرح گھومتا رہا۔ اب والدین سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی۔ تعطیلاتختم ہونے کے بعد میں ہاسٹل واپس لوٹنے لگا تو میں نے آخری ملاقات میں ان سے وعدہ لیا کہ وہ مجھ سے اتوار کو اکٹھے ملنے آئیں گے۔ وہ دونوں مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میں اپنی محبت کے واسطے ان دونوں کو اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اتوار کا پورا دن گزر گیا، مگر دونوں کہیں نظر نہ آئے۔میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا، مجھ کو نہیں معلوم کہ میرے شرط رکھنے کے بعد ان پر کیا گزری، البتہ میں ہمیشہ کے لیے اکیلا ہوگیا۔ اتوار کے دن میرے ساتھی جب اپنے والدین سے ملاقات کرتے تو میں آنسو خود بخود میری آنکھوں میں تیرنے لگتے، مگر دھیرے دھیرے وقت نے اس زخم کو بھی مندمل کردیا۔ کتابیں میری بہترین رفیق ہوگئیں، تب سے آج تک ہاسٹل ہی میرا گھر ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہمیشہ ہنستے رہنے سے زندگی خود بخود خوبصورت ہوجاتی ہے۔ تمہارے والدین سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ آدم و حوا کی جنت گم گشتہ یہی ہے۔ مجھے تمہارے مقدر پر رشک ہونے لگا۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں، جن کا کوئی نام نہیں ہوتا، مگر ان سے وابستگی کا معتبر احساس رگ و پے میں زندگی بن کر دوڑتا ہے۔ تمہارے چہرے کی ہلکی سی مسکراہٹ مجھے حوصلوں سے مالا مال کردیتی ہے،تم سے ملاقات سے پہلے اپنی دوست، غمگسارسب کچھ میں ہی تھا،مگر اب جب بھی کسی کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہمدم و غمگسار کی شکل میں مجھ کو صرف تمہارا ہی چہرہ نظر آیا۔یسریٰ تمہاری ضد بجا تھی مگر مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں اپنے خاندان کے بکھرے ہوئے شیرازے کے بارے میں تمیں کچھ بھی بتاوں گا تو کہیں تم یہ کہہ کر مجھ سے الگ نا ہوجاکہ جب تمہیں اپنے والدین سے محبت نہیں ملی توتم اوروں سے اس کی کیا توقع کرتے ہو۔ لیکن یسریٰ اگر تم نے ایسا کہہ بھی دیا ہوتا تب بھی میں بکھروں گا نہیں، اس لیے کہ یہ خواب خود میری آنکھوں نے مجھ کو دکھائے تھے اور مجھے اپنے مقدر سے کوئی گلا نہیں ہے، اس لئے کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری آنکھوں کو
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
 یسریٰ !تم کو مقدر نے ڈھیر ساری خوشیوں سے نوازا ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے تمہاری پیشانی شکن آلود ہو۔
        تمہاری مسکراہٹوں کا متمنی
تمہارا قیس
خط پڑھ کر یسریٰ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے دل ہی دل میں کہا۔ قیس میری ساری محبت تمہارے نام ہے۔ میں محبت کے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کروںگی۔ شام ڈھل رہی تھی، یسریٰ کو قوی امید تھی کہ اگلے دن کا سورج ان کے لیے نئی صبح کا پیامبر ہوگا۔

                    محمود فیصل
                                     ایم فل سال دوم




٭٭٭

راہ الفت

0 تبصرے


اٹھارہ سال کی لڑکی فبیحہ نے پورے گھر میں ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ دنیا بھر کی چنچل پن اورشوخی ان کے رگوں میں ہے۔ بچوں جیسی شیطانی ان کے انگ انگ میں ہے۔ داہیں باہیں آگے پیچھے بچوں کا ہجوم ہے۔اس کی وجہ سے گھرمیں ہروقت چیخ پکاررہتی ہے۔ گھروالے اس کولے کر بہت پریشان ہیں کہ یہ لڑکی ذہنی اعتبارسے کب بڑی ہوگی؟
زندگی بڑی تیز رفتاری سے گزررہی تھی۔ فبیحہ کی شیطانی حرکت روز کا معمول تھا۔ فبیحہ کے لئے نہ معلوم کتنے ٹیوشن پڑھانے والے آئے اور ان کی قینچی جیسی زبان سے کٹ کر چلے گئے۔ فبیحہ کے والد نے فبیحہ کے لئے ایک ایسے لڑکے کی تلاش کی جو خوبرو، ذہین اور پڑھا لکھا تھا۔ جعفرمرزا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پہلے دن آتے ہی جعفر نے یہ سوال کیا کہ فبیحہ کہاں ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بچوں کے ہمراہ کھیل رہی ہے۔جعفر نے اپنی باتوں پر زور دیتے ہوئے کہا، میں اسے پڑھانے آیاہوں۔
لیکن جیسے ہی فبیحہ کے کانوں میں ان کی آواز پہنچی توفبیحہ دوڑتی ہوئی Study Roomمیں جاکر چپ چاپ بیٹھ گئی جیسی کچھ جانتی ہی نہ ہو۔ جب جعفر اسٹڈی روم میں آئی توفبیحہ کو دیکھکر من ہی من میں مسکرائے کیونکہ وہ اس کی ساری شےطانی دیکھچکے تھے۔
جعفر نے فبیحہ سے پڑھائی کے متعلق کچھ سوال کئے اوراسے پڑھانا شروع کیا۔ جعفر اس سے بات کرتے جاتے اورمن ہی من میں مسکراتے جاتے انہیں یقین نہیں تھا کہ فبیحہ پڑھائی میں بھی اتنی ہی ہوشیارہے اسی دوران فبیحہ کی والدہ جعفر کے لےے ایک پیالی چائے لے کر آہیں اورانھےں عزت کے ساتھ پیش کی۔ جعفرنے چائے کی پیالی ہاتھ میں لےتے ہوئے فبیحہ سے کہا، آپ چائے پئیں گی؟ لیکن فبیحہ سچ سمجھ بیٹھی ۔اس نے بالکل بے تکلف اورخود اعتمادی کے ساتھ کہہ دیا۔ جی ہاں میںچائے پےوں گی، جعفر اس کا جواب سنتے ہی مسکرائے۔
جعفرکو فبیحہ کی یہ ساری باتیں بہت پسند آہیں اوروہ فبیحہ کو بہت دلچسپی سے پڑھانے لگے۔ ہرروز فبیحہ کو وقت سے پہلے ٹیوشن پڑھانے آجاتے۔دوگھنٹہ ٹیوشن پڑھانے کے بعد اس سے خوب باتیں کرتے۔ فبیحہ ان کی باتوں کو دلچسپی سے سنتی اور خوب مزے لےتی۔ یہ روز کا معمول بن گیا۔
جیسے جیسے دن گزرتے گیا ویسے ویسے یہ دونوں ایک دوسرے کے قرےب آتے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فبیحہ کی شےطانیاں بھی ختم ہورہی تھیں۔ اس میں ایک سنجےدگی پیدا ہوگئی تھی۔
آج بارش تیز ہونے کی وجہ سے بہت سردی ہے۔ سب لوگ لحافوں میں گھسے بیٹھے ہیں مگرفبیحہ دالان میں بیٹھ کر گرم گرم چائے اورٹھنڈی ٹھنڈی بارش کے بوندوں سے خوب لطف لے رہی ہے اور دل میں ایک عجیب سی بیچینی ہے ۔اس کی یہ بیچینی جعفر کے انتظار کا ثبوت دے رہی ہے۔ لیکن فبیحہ اپنے دل میں یہ بھی سوچتی ہے کہ بارش اتنی تیز ہورہی ہے جعفر کےسے آہیں گے ؟ آج وہ نہیں آپاہیں گے۔ فبیحہ یہ سب جانتے ہوئے بھی پتہ نہیں جعفر کا کیوں انتظار کررہی ہے؟
جس طرح سے فبیحہ کے کپ کی چائے کم ہورہی ہے اسی طرح سے بارش بھی ہلکی ہوتی جارہی ہے۔ نےلے نےلے آسمان سے ہلکی ہلکی ، سہمی سہمی سی بوندیں ڈرڈر کرزمین پر گررہی ہیں۔ ان ڈری ہوئی بوندوں کو دیکھ کر فبیحہ کے دل میں امید کی ایک کرن جاگی کہ شاید جعفر اب آجاہیں۔(بقیہ اگلے شمارے میں)
                   عالیہ
                                ایم اے سال اول


٭٭٭

ایک حقیقت

0 تبصرے


نہ توتم سب سے الگ ہو
نہ سب سے حسیں
نہ سب سے جدا
نہ تمہاری آنکھوں میں ساگرکی گہرائی ہے
نہ تمہاری زلفوں میں ساون کی گھٹا
نہ تمہاری آواز میں وہ جادو جو دلوں پہ چھا جائے
نہ تمہارے اندازمیں وہ شوخی جو کچھ ارمان جگاجائے
نہ توتم حسن کی شہزادی ،نہ پریوں کی ملکہ
مگر تم ،تم ہو
اپنے آپ میں ایک
ایک حقیقت ، ایک سچائی
کسی کے اتنا قریب
کہ ڈھونڈتا ہے وہ خودکوتو تم کو پاتاہے
وہ چاہتا ہے کہ تمہیں خود سے جدا کرڈالے
وہ حیران ہے پرےشان ہے کہ کیسے کرے
کیا کبھی خو ن سے سرخی بھی الگ ہوتی ہے؟
یہ اس کی زندگی ترے بغیر ایسی ہے
کہ جیسے چاندہو اوراس میں چاندنی نہ ہو
کہ ایک کتاب ہواوراس میں کچھ لکھا نہ ہو
کہ ایک راگ ہو اوراس میں راگنی نہ ہو
کہ جیسے پھول سے خوشبو کو چھین لے کوئی
وہ جی تولےگا تمہارے بغیر بھی لیکن
یہ اس کی زندگی اس سے حساب مانگے گی
یہ اس کی ڈھڑکیں اس سے خفا خفا ہونگی
یہ جسم وروح کے رشتے بھلا ہوں کےسے جدا
وہ ایک جسم ہے اور روح بن گئی ہوتم
وہ جی تولےگا تمہارے بغیربھی لیکن
                                دانش حسین خان
                                  ریسرچ اسکالر

٭٭٭

زندگی کی اہمیت

0 تبصرے

  
زندگی فقط لفظ نہیں ہے ۔یہ ایک احساس ہے ۔اس کے مفہوم اتنے گہرے ہیں جیسے سمندر میں مو تی۔۔۔مگر افسوس کہ آج اکےسوےں صدی کی نئی جوان نسل ”زندگی “کے مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کر تی ہے ۔۔۔زندگی عذاب ہے عذاب ۔۔زندگی جہنم بن گئی ہے ۔زندگی سے موت بہترہے۔اس زندگی نے ہمیں دیا ہی کیا ہے!۔بھلا بتائےے،اپنی ناکامی اور نا اہلی کا ذمہ دار بےچاری ”زندگی “کو ٹھہراتے ہیں ،اسے کوستے ہیں اور ”زندگی“کی جگہ موت کو بہتر سمجھتے ہیں اور مرنا پسند کر تے ہیں۔
آج جب انسان نے عرش و زمین کی دوری طے کر لیا ہے ۔جہاں انسان چاندپر گھر بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے ،عہد حاضر میں کوئی فعل ناممکن نہیں لگتا ۔آج جب ٹےکنا لو جی اورسائنس نے بلندےوں کا آخری سفر طے کرلیا ہے ۔اب اس دور میں نا ممکن جےسا لفظ ز باں پہ لا تے ہوئے بھی شرمندگی کااحساس ہمارے ضمےر کو جھنجھوڑکر رکھ دےتا ہے۔تو پھر کیوں آج ہماری جواں نسل ماےوسی کی چار دےواری میں بند ہو کر زندگی کو کوسنے لگتی ہے ؟کیوں؟۔
میں پوچھنا چا ہتی ہوں ان نو جوان نسلوں سے کہ کیا ان کے چہروں پر آنکھےں نہیں ہیں؟کیا تمہار ے پاس دل و دماغ نہیں ہیں؟اگر ہے تو محسوس کیوں نہیں کرتے ۔محسوس کرو اور پو چھو زندگی کی اہمیت ان لو گوں سے جو زندگی کے لئے لڑ تے ہیں ۔کبھی پو چھو اس تڑپتی ہوئی ماں سے جو اپنی اولاد کی ولادت کے وقت کس قدر زندگی کے لئے موت سے لڑتی ہے اور اپنی اولاد کو زندگی عطا کر نے کے لئے خود دنیا سے رخصت ہو جا تی ہے ۔کبھی پو چھو !اس بوڑھے باپ سے جو اپنی جوان بےٹےوں کی شادی کے خواب آنکھوں ہی میں سجا ئے ہوئے زندگی کی آخری سانس گن رہا ہوتا ہے ۔پوچھواس بو ڑھے باپ سے زندگی کی اہمیت۔۔۔ مگرآج کی جواں نسل کی نظر میں زندگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ اتنی بزدل اور خود غرض ہو گئی ہے کہ اپنی خطاوں کو ڈھانکنے کے لئے زندگی جےسی نعمت کو گالی دےتی ہے ۔
زندگی تو ایک امید ہے ،خواب ہے،خو اہش ہے ،محبت ہے ۔ امید ،خواب ،خواہش اور محبت کو پانا ہی اصل زندگی ہے ۔اگر ایک کو شش ناکام ہو جائے تو کیا غم ۔دوبارہ کوشش کرو ،پھر کو شش کرو کیونکے کوشش کا ہی دوسرا نام زندگی ہے ۔آئے دن خبروں میں آتا ہے کہ فلاں لڑکے یا لڑ کی نے خود کشی کر لی ،وجہ ’امتحان میں ناکا می‘جسے ایک امتحان کے بعد وہ آنکھوں سے اندھے اور ہاتھ پیروں سے لنگڑے لولے ہو گئے تھے کہ پھر اس قابل نہیں تھے کہ دو بارہ امتحان میں بیٹھ سکے ۔اس لئے انہو ں نے د وبارہ کو شش کرنے کے بجائے مرنا بہتر سمجھا ۔خود کشی کرکے بڑی بہادری کا کام سمجھتے ہیں۔جبکہ شرےعت اسلامی میں خودکشی کرنا حرام ہے ۔
اس لئے مےری درخواست ہے ان لو گوں سے جو زندگی سے ماےوس ہو کر اپنی ایک ناکام کوشش سے اداس ہو کر زندگی جےسی نعمت کو ٹھکراکر مرنا پسند کرتے ہیں ۔اے انسانو !زندگی جےواور اسے خوبصورت انداز میں سنوارنے کی کوشش کرو،مشکل ہے تو آسان بناو۔بدصورت ہے تو خوبصورت بناو۔ناممکن ہے تو ممکن کروکیونکہ یہ زندگی بہت قیمتی ہے اس کو ایسے مت گنواو۔اس زندگی پر خود کے علاوہ اوروں کا بھی حق ہے ۔اس لئے اس نعمت کو اےسے مت گنواو،یہ زندگی صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی جیو۔چاہئے کتنے ہی کٹھن اور دشوار کن مرحلوں کا سامنا کر نا پڑے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔پھر دیکھو زندگی کا لطف۔۔۔۔۔
                                       حمیرہ حیات
                                          (ایم اے سال اول

٭٭٭

بزم ادب کی سرگرمیاں

0 تبصرے


بزم ادب شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی کی ایک ایسی انجمن ہے جس کے بینر تلے طلباءاپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلابخشنے کے لیے مختلف پروگرام کرتے ہیں۔ گزشتہ مہینے میں بھی بزم ادب کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ہم ذیل میں ان سرگرمیوں کا سرسری جائزہ لیں گے۔
بزم ادب کی تشکیل جدید
بزم ادب کو منظم اور فعال طریقے پر چلانے کے لئے بزم ادب کے نگراں اور شعبہ کے استاد ڈاکٹر محمد کاظم صاحب اور ڈاکٹر ارجمند آراءکی سپرستی میں 11جنوری کو بزم ادب کا انتخاب عمل میں آیا۔ جمہوری طریقے پر طلبہ و طالبات نے بزم ادب کے عہدے داران کا انتخاب کیا۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
صدر :    رضی احمد ندوی(ریسرچ اسکالر)
نائب صدر : افسانہ،عادل احسان
 سکریٹری:       محمد دانش(ریسرچ اسکالر)
نائب سکریٹری : عالیہ، آسیہ
خازن:    محمد توصیف (ایم فل)
ممبران:مسرت جہاں،اشرف علی ، آیت اللہ اشرف، تبسم پروین ، محمد راشد
 شعبہ اردو کے طلبہ کی میگزین کے کے لئے مندرجہ ذیل عہدے داران کو منتخب کیا گیا:
ایڈیٹر       محمد ارشد(ریسرچ اسکالر)
سب ایڈیٹر: عزیر اسرائیل (ایم فل سال دوم)
مجلس مشاورت
عارف اشتیاق  (ریسرچ اسکالر)
مدنی اشرف      (ایم اے سال دوم)
سفینہ                (ایم اے سال اول)
استقبالیہ نششت:
مورخہ27/فروری کو بزم ادب کی طرف سے ایم اے اور ایم فل سال اول کے لئے ایک استقبالیہ نششت کا اہتمام کیا گیا جس میں جدید طلباءقدیم طلباءسے متعارف ہوئے۔ قدیم طلباءنے اپنے نئے ساتھیوں کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ طلباءنے اپنی اپنی پسند کے مطابق نظم ، غزل اور فلمی نغمے گاکر سامعین کو اپنی آواز کے جادو سے مسحور کیا۔
                                                     ادارہ
٭٭٭٭