پیر, فروری 14, 2011

ڈھل گئی شام غم افسانہ

0 تبصرے


قیس ایم بی اے کے ٹسٹ میں شریک تھا۔ اپنی محنت کے سبب اسے قوی امید تھی کہ اس کا انتخاب ہوجائے گا۔ نتیجہ امیدوں کے عین مطابق نکلا۔ تبھی پاس ہی موجود یسریٰ پر اس کی نظر پڑی۔ قیس نے حسب عادت مسکراتے ہوئے اسے سلام کیا۔ یسریٰ نے جواب کے ساتھ قیس کی خیریت بھی دریافت کی۔ یسریٰ بھی ایم بی اے کے ٹسٹ میں شریک ہوئی تھی۔ قیس کے ساتھ نوٹس بورڈ پر اس کا بھی نام آویزاں تھا۔ داخلے کے مراحل کی تکمیل کے ساتھ دونوں کی کلاسز شروع ہوئیں ۔
 قیس اور یسریٰ کو ابتدائی کلاسوں سے ساتھ رہنے کے سبب کالج کے ماحول میں ایک دوسرے سے قریب رہنے کا موقع ملا۔ اس طرح وہ محبت کے انجانے حصار میں بندھتے چلے گئے۔ قیس کے انداز گفتگو نے جہاں اس محبت کی نشو و نما کی، وہیں یسریٰ کے تبسم نے اس میں چار چاند لگائے اور رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت بنتے چلے گئے۔
 قیس کی ذہانت اور محنت نے چند ہی دنوں میں اسے کلاس کا ممتاز طالب علم بنادیا۔ تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھی وہ شریک ہوتا رہا۔ اس کے بات کرنے کا انداز اتنا دلکش تھا کہ سامنے والااسے دیکھتا رہ جاتا۔
کالج کے فنکشن چل رہے تھے۔ قیس اور یسریٰ نے بیت بازی میں حصہ لیا تھا۔ دونوں کو پہلے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ فنکشن کے اختتام کے بعدانعامات کی تقسیم میں دونوں کا نام پکارا گیا۔ دونوں نے وائس چانسلر کے ہاتھوں سے انعام وصول کیا۔ فنکشن کے بعد یسریٰ نے اپنے والدین سے قیس کو ملایا۔ جب یسریٰ اپنے والدین کے ساتھ جانے لگی تو قیس نے یسریٰ سے انعام اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا۔ یسریٰ نے یہ انعام یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ اسے اپنے پاس ہی رکھو۔ یسریٰ کے والدین نے دونوں کی نگاہوں میں پنہاں محبت کو محسوس کیا۔ یسریٰ نے جلدی سے وہ انعام قیس کے ہاتھوں سے لے لیا اور خدا حافظ کہتے ہوئے والدین کے ہمراہ چل پڑی۔
یسریٰ کی دعوت پرایک دن شام کو قیس اس کے گھر پہنچا،یسریٰ کے والدین قیس سے نہایت خلوص اور تپاک سے ملے۔ باتوں باتوں میں جب قیس سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا گیا تو والدین کے نام پر اس کی نگاہیں خلا میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے آہستہ سے جواب دیا ”جی وہ لوگ بھی بخیر ہیں“ قیس کے چہرے کا تاثراچانک ہی تبدیل ہو گیا تھا۔یسریٰ سوچنے لگی کہ قیس کو اچانک کیا ہوگیا۔ قیس یسریٰ کے والدین کے سوالوں کا جواب بے دلی سے دیتا رہا۔ یسریٰقیس کو یکلخت دیکھے جا رہی تھی۔ چائے سے فراغت کے بعد قیس نے واپسی کی اجازت طلب کی تو اسے کھانے کے لیے روک لیا گیا۔ اپنے والدین کے ساتھ قیس کو اس طرح کے مواقع ہوش سنبھالنے کے بعد کبھی نصیب نہ ہوئے تھے،والدین کے ساتھ دسترخوان پر کبھی اس نے اپنے والدین کو اکھٹے نہیں دیکھا تھا،ایک ساتھ کھانا کھاتے اور بات کرتے ہوئے قیس کو بہت اچھا لگ رہا تھا،یسریٰ کی والدہ نے جب محبت کے ساتھ زبردستی قیس کی پلیٹ میںبریانی رکھی تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی منع نہ کرسکا، اس نے پہلی بار زندگی میں محبت کے اس روپ کا دیدار کیا تھا، قیساپنی محبت سے محروم قسمت اور یسریٰ کی محبتوں سے پر نور زندگی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
یسریٰ اور قیس کلاس میں ایک ساتھ رہتے، مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے مگر جب بھی یسریٰ اس کے اہل خانہ کی طرف بات کا رخ موڑتی تو قیس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوجاتی۔ایک دن کلاس ٹیچر کی عدم موجودگی پر جب کلاس کے سارے طالب علم خوش گپیوں میں مصروف تھے، مسکراتے ہوئے یسریٰ نے سوال کرڈالا۔قیس کیا میں تمہاری مسرت کا راز جان سکتی ہوں؟
قیس نے اسی رو میں جواب دیا’یسریٰ جسے تم جیسا دوست ملے اور وہ پھر بھی خوش نہ رہ سکے ایسا کبھی ہوسکتا ہے کیا؟۔ اس پر یسریٰ نے چہکتے ہوئے کہا قیس جب میں تم سے بات کرتی ہوں تو تمہارے اہل خانہ کے متعلق سوالات تم کو پژمردہ کردیتے ہیں۔ میں تمہارے والدین سے ملاقات کی متمنی ہوں۔“ تبھی کلاس ٹیچر آگئے اور ان کی بات ادھوری رہ گئی۔
 قیس کو زندگی نے عجب موڑ پر لا کھڑا کیا، وہ خاموش تھا۔ اس پر یسریٰ بول پڑی میں تم سے مل کر بہت خوش تھی کہ مجھے ایک اچھا دوست مل گیا ہے مگر یہ میرا وہم تھا، اس لیے کہ دوست دوست ہوتا ہے کچھ اور نہیں جب کہ ہم تو صرف کلاس میٹ ہیں۔ یسریٰ چیخ پڑی۔ اگر ہم اچھے دوست ہیں تو میری والدہ نے جب تم سے تمہارے والدین کی خیریت دریافت کی تو تم چپ کیوں رہے؟ تمہارا چہرہ فق کیوں ہوگیا۔آخر کیا وجہ ہے کہ میری ضد کے باوجود آج تک تم اپنے خاندان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ بتا سکے۔ اگر تمہاری نظر میں یہ دوستی ہے تو یسریٰ ایسی دوستی کو خیر باد کہتی ہے۔ اتنا کہہ کر یسریٰ ایسی پیر پٹختی ہوئی چلی گئی۔قیس کو یسریٰ کے سوالا ت نے ساکت وجامد کردیا تھا۔امتحان آنے والے تھے قیس نے کئی بار یسریٰ کو منانے کی کوشش کی مگر یسریٰ نے شرط لگادی ، قیس جب بھی ہماری بات کی شروعات ہوگی توپہلے تمہارے خاندان کے بارے میں بات ہوگی اس کے بعد کوئی اور بات ہوگی۔۔۔۔۔ نہیں تو نہیں ہوگی۔۔۔۔
 تمہارے نزدیک جس چیز کی اہمیت زیادہ ہو ہو اس کو پکڑلو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔دونوں نے الگ الگ ہی امتحان کی تیاری شروع کردی۔ امتحان کے اختتام کے بعد قیس نے یسریٰ کو اپنے ماضی سے آگاہ کرنے کے لیے تحریر کا سہارا لیا۔
یسریٰ!
میں تمہاری ذہانت کی داد دیتا ہوں کہ تم نے میری مسکراہٹ میں چھپی تلخی کو محسوس کرلیا۔ ویسے جہاں محبت ہو وہاں ایک دوسرے کی پریشانیوں کا علم خودبخود ہو ہی جاتا ہے۔ تم نے بالکل درست سمجھا۔
ہاں یسریٰ ! میرا ماضی تاریک رہا ہے لیکن میری فطرت میں روشنی کی طلب ہے۔ میں نے اپنی مسکراہٹوں کے چراغ جلا کراپنے مقدر کی تاریکی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید کے چراغ، ہمیشہ میرے تاریک مقدر کو زندگی بخشتے رہے ہیں۔ میں اداس ضرور رہا مگر میری اداسی تھکن آمیز یاسیت کبھی نہ بن سکی۔ اگر تم یہ سوال اس وقت پوچھتیں جب میں تمہارے والدین سے ملا نہیں تھا تو شاید کہ میں تم کو اپنے منتشر ماضی سے تم کو باخبر کردیتا۔
یسریٰ جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ہاسٹل میں پایا۔ وقفے وقفے سے میرے والدین مجھ سے ملنے آتے رہے لیکن ان کو کبھی میں نے ایک ساتھ اپنے پاس نہیں دیکھا۔ امی آتیں تو ابو نہیں ہوتے۔ میں امی سے ابو کے بارے میں پوچھتا تو امی کہتیں کہ بیٹے وہ آفس میں ہیں۔ ابو آتے تو امی ان کے ساتھ نہیں ہوتیں۔ میں پوچھتا ابو امی آپ کے ساتھ نہیں آئیں؟ اس پر ابو جواب دیتے کہ بیٹے میں سیدھے آفس سے آرہا ہوں وہ گھر پر ہوںگی۔ میں بار ہا ان دونوں سے کہتا کہ آپ لوگ اتوار کو آیا کریں، اس دن میرے ساتھیوں کے والدین ان سے ملنے آتے ہیں اور میں اکیلا ہوتا ہوں۔مرے بار بار اسرار کے باوجود انہیں ایک ساتھ دیکھنے کی میری خواہش پوری نہ ہوسکی۔
گرمی کی تعطیل ہوگئی۔ امی مجھ کو اسکول سے لینے آئیں۔ میں بہت خوشتھا کہ شاید اب میں والدین کو اکٹھا دیکھ سکوں مگر شام ہونے پر بھی ابو کی شکل گھر میں نظر نہیں آئی، میں نے امی سے ابو کے بارے میں پوچھا تو وہ خاموش رہیں۔ تیسرے روز ڈرائیور مجھ ٹہلانے لے گیا، وہاں ابو کو دیکھتے ہی میں دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔ میں ان کے ساتھ دوسرے گھر میں پہنچا تو وہاںصرف اور صرف ابو تھے۔ میںنے ابو سے امی کے بارے میں پوچھا مگر ابو چپ رہے۔ اس طرح میں والدین کے درمیان بی پنڈولم کی طرح گھومتا رہا۔ اب والدین سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی۔ تعطیلاتختم ہونے کے بعد میں ہاسٹل واپس لوٹنے لگا تو میں نے آخری ملاقات میں ان سے وعدہ لیا کہ وہ مجھ سے اتوار کو اکٹھے ملنے آئیں گے۔ وہ دونوں مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میں اپنی محبت کے واسطے ان دونوں کو اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ اتوار کا پورا دن گزر گیا، مگر دونوں کہیں نظر نہ آئے۔میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا، مجھ کو نہیں معلوم کہ میرے شرط رکھنے کے بعد ان پر کیا گزری، البتہ میں ہمیشہ کے لیے اکیلا ہوگیا۔ اتوار کے دن میرے ساتھی جب اپنے والدین سے ملاقات کرتے تو میں آنسو خود بخود میری آنکھوں میں تیرنے لگتے، مگر دھیرے دھیرے وقت نے اس زخم کو بھی مندمل کردیا۔ کتابیں میری بہترین رفیق ہوگئیں، تب سے آج تک ہاسٹل ہی میرا گھر ہے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہمیشہ ہنستے رہنے سے زندگی خود بخود خوبصورت ہوجاتی ہے۔ تمہارے والدین سے ملنے کے بعد احساس ہوا کہ آدم و حوا کی جنت گم گشتہ یہی ہے۔ مجھے تمہارے مقدر پر رشک ہونے لگا۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں، جن کا کوئی نام نہیں ہوتا، مگر ان سے وابستگی کا معتبر احساس رگ و پے میں زندگی بن کر دوڑتا ہے۔ تمہارے چہرے کی ہلکی سی مسکراہٹ مجھے حوصلوں سے مالا مال کردیتی ہے،تم سے ملاقات سے پہلے اپنی دوست، غمگسارسب کچھ میں ہی تھا،مگر اب جب بھی کسی کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہمدم و غمگسار کی شکل میں مجھ کو صرف تمہارا ہی چہرہ نظر آیا۔یسریٰ تمہاری ضد بجا تھی مگر مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں اپنے خاندان کے بکھرے ہوئے شیرازے کے بارے میں تمیں کچھ بھی بتاوں گا تو کہیں تم یہ کہہ کر مجھ سے الگ نا ہوجاکہ جب تمہیں اپنے والدین سے محبت نہیں ملی توتم اوروں سے اس کی کیا توقع کرتے ہو۔ لیکن یسریٰ اگر تم نے ایسا کہہ بھی دیا ہوتا تب بھی میں بکھروں گا نہیں، اس لیے کہ یہ خواب خود میری آنکھوں نے مجھ کو دکھائے تھے اور مجھے اپنے مقدر سے کوئی گلا نہیں ہے، اس لئے کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری آنکھوں کو
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
 یسریٰ !تم کو مقدر نے ڈھیر ساری خوشیوں سے نوازا ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے تمہاری پیشانی شکن آلود ہو۔
        تمہاری مسکراہٹوں کا متمنی
تمہارا قیس
خط پڑھ کر یسریٰ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے دل ہی دل میں کہا۔ قیس میری ساری محبت تمہارے نام ہے۔ میں محبت کے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کروںگی۔ شام ڈھل رہی تھی، یسریٰ کو قوی امید تھی کہ اگلے دن کا سورج ان کے لیے نئی صبح کا پیامبر ہوگا۔

                    محمود فیصل
                                     ایم فل سال دوم




٭٭٭

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔