پیر, فروری 14, 2011

عزیز احمد کی ناول نگاری

0 تبصرے


          عزیز احمد اردوناول نگار میں اپنا ایک مخصوص ومنفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے متعددناولوں کے ذریعے اردو ناول نگاری کی روایت میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ ان کے ناولوں میں ہوس، شبنم، ایسی بلندی ایسی پستی، گریز،آگ، وغیرہ ہے۔ جس پرایک لطیف رومانی احساس کا رفرماہے۔ بعض ناولوں میں جیسے: ہوس، میں یہ رومان جنسی ہےجان کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ ان کے ابتدائی ناولوں میں یہ چیزیں دیکھنے کوملتی ہیں لیکن جیسے جیسے لمحات گزرتے ہیں رومان اور جنس کے اشتراک سے سماجی شعور اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے ناولوں میں کسی نہ کسی سماجی مسئلے کواجاگر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
عزیزاحمد کے ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت ،گریز،کوحاصل ہے۔ جس میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی کو بیان کیاہے جو آئی سی ایس کے لئے منتخب ہوتا ہے ۔وہ اس کے ذریعے انگلستان، یورپ کی سیر کرتاہے۔ ناول میں ۶۳۹۱ءسے لےکر ۲۴۹۱ءتک کے زمانے کو دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں دوتہذیبوں کا تصادم ہے۔ اس عہدکے نوجوانوں کی طرح نعیم کی ذہنیت بھی یورپ جاکر تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے اندر زندگی کی عیش پرستی اورلذت کوشی کو سمونے کی کیسی کیسی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے دیس بدیس گھومتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ کاماحول اس پرپوری طرح غالب نظر آتاہے۔ ایک دل پھینک نوجوان ہونے کے ناطے عورت محض اس کے لیے کشش جنس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وہ خوبصورت عورتوں کے ارد گرد منڈلاتارہتا ہے۔ لیکن ان میں سے وہ کسی کو بھی اپنا نہیں پاتا۔ شایداس لئے کہ اسے ایک مکمل اورخاص عورت کی تلاش ہے یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں کئی عورتوں کے کردار آتے ہیں۔ جن میں مغرب ممالک کی عورتیں زیادہ ہیں۔ جس کی وجہ سے رومان اورجنس کی شدت نعیم کے فکر پر حاوی نظرآتی ہے۔ اس حدتک کہ ناول کے معاشی اورسیاسی پس منظر میں بھی جنسی حقائق غالب نظر آتے ہیں۔
نعیم زندگی کی تلخ حقیقتوں اوریہاں تک کہ وہ محنت اورعشق کی تلخیوں سے بھی گریز کرتا ہے اوربیسویں صدی کے بدلتے ہوئے اہم رجحانات کی آئینہ داری کرتاہے۔ اس کے اندر کسی طرح کی بندش نہیں ہے۔ نہ اخلاقی اورنا ہی مذہبی قدروں کی پاسداری۔ اس کی حالت ایک ایسے نوجوان کی سی ہے جوکشمکش اورتذبذب کاشکارہے۔ اسے خود نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے۔ وہ سائنسی ایجادات اور نئے علوم وفنون سے واقف ہے۔ لیکن زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یورپ کی چمک دمک سے بھی زیادہ متاثرنہیںہوپاتا۔ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان بھی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں سے دوچار تھا اورایسے موقع پرنئے علوم وافکار کی آمد تھی۔ یہ تبدیلیاں اپنی طرف جدید ذہنوں کومتاثر کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کاہیرونعیم دنیائے جدید علوم وفنون سے واقف نظر آتاہے۔
نعیم کاکردار اس عہد کے ایک ایسے پڑھے لکھے نوجوان کا کردار ہے جو سماجی اورتہذیبی اعتبار سے دوراہے پرکھڑا ہے ۔ مغربی تہذیب کی چمک دمک لیکن ساتھ ہی اس کا کھوکھلا پن ظاہرتاًمشرق کی روایت پرستی ہے لیکن اس کے کردار کی مضبوطی بھی عیاں ہے۔ تبدیلی کے اس دوراہے پران دنوں نوجوانوں کے جومسائل تھے۔ نعیم ان کی نمائندگی کرتاہے۔ ناول میں ہرکردار اورہر واقعے کوبڑے اچھے ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔
عزیزاحمدنے اپنے ناول میں جنسی پہلووں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو بھی بے نقاب کیاہے اوراس کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ناول نگار نے جنسی میلان کا مواد یورپ سے لیاہے ۔ کیونکہ یہ ماحول مشرق میں بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتاہے جوآزادی یورپ میں ہے وہ ہندوستان میں نہیں تھی۔
گریز‘دوعظیم جنگوں کے پرآشوب دورکی کہانی ہے۔
الغرض عزیز احمد نے جدت پسندی کایہ کارنامہ انجام دیاہے۔ انہوں نے ہندوستان اورغیرہندوستانی شہروں کے احوال کو بیان کیا ہے جہاں غیرملکی سیاحوں کی وجہ سے تہذیبی ٹکراوہوتاہے اور نئی تہذیب کی آمد ہوتی ہے۔ ان کے ناول ہراعتبار سی ایک نئے موڑکی نشاندہی کرتے ہیں اورزندگی کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
گریزکے بارے میں علی عباس حسینی لکھتے ہیں۔کہ
اس ناول نے پہلی دفعہ ہماری زبان میں یورپ کو اس کے سیاسی اور اقتصادی اورجنسی انداز کو ہندوستانی نقطہ نظرسے پیش کیا ہے۔

                                     وسیمہ سلطانہ
                                                                                            ریسرچ اسکالر

                                   ٭٭٭

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔