پیر, فروری 14, 2011

میر تقی میر کا انتہائے غم

0 تبصرے

سرہانے میرکے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
  میراردوکے پہلے شاعر اورشاید آخری شاعر ہیں جنہوں نے زندگی جیسے موضوع پر نہایت سنجیدگی سے غورکیا ہے۔ میر کو بچپن سے شعر وسخن کا بے حدشوق تھا۔ بچپن ہی میں شعر کہنے لگے تھے۔ میرکی زندگی بڑی بے چارگی اور پریشان حالی میں گذری۔ دس سال کے تھے کہ والد کا سرسے سایہ اٹھ گیا۔ میر نے زندگی بھر غم اٹھائے اورپریشان حال رہے۔
 میر کی شاعری میں غم کا اظہار ملتا ہے ۔ان کے یہاں ذاتی غم عالم گیر حیثیت کے احساس سے بھرا ہوا ہے ۔ میر کے اس غم میں ان کے شعور کی جھلک نمایاں ہیں۔ میر کا غم ان کی ذات تک محدود نہیں وہ بےشتر بنی نوع انسان کا غم ہے ۔والد کے مرنے کے بعد میرنے جتنی پریشانیاں اورمصیبتیں اٹھائیں شاید ہی کسی شاعرنے اٹھائی ہوں گی۔
شاعرکے کلام کاایک بڑا معیار اس کے کلام کی تاثیر ہے۔ اگرچہ اس معیار پر میر کے کلام کو جانچاجائے توان کا مرتبہ شعراءمیں سب سے اعلیٰ پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعارمیں سوزوگداز پایا جاتاہے زبان سے نکلتے ہی دل میں اثرکرتے ہیں۔اور آج بھی لوگ ان کے کلام کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ اگرچہ میر کے اشعار کے الفاظ ملائم دھیمے، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش ہے۔ غضب کادرد چھپاہے۔ الفاظ کی سلاست اورترتیب کی سادگی لوگوں کومتاثرکرتی ہے۔
میر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
ہمارے آگے تراجب کسی نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
بڑی سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
میر کا کلام عشقیہ ہیں لیکن ان میں اکثر ایسے اشعاربھی ملیں گے جن میں کوئی اخلاقی یا حکیمانہ نکتہ خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی طبیعت کے دورنگ ہیں۔ میر کے اشعار عاشقانہ ہوں یا حکیمانہ ،ان میں مایوسی کی جھلک پائی جاتی ہے۔
جواس شورسے میر روتا رہے گا
توہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا
اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں ہے مگرشعر کس قدر پر درد ہیں۔ دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیزبنادیا ہے ۔ یہ سلاست اوریہ انداز بیان میرکے کلام کا حصہ ہے لیکن پھر بھی میر زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
خوش رہاجب تلک رہا جیتا
میرمعلوم ہے قلندر تھا
میر کو کسی بات کا صدمہ نہیں وہ قسمت پرشاکر ہیں ۔ان کوہرشام کی سحر کا یقین ہے۔
کیا شب ہوئی زمانے میں جو پھرنہ ہوا روز
کیا ای شب فراق تجھی کو سحر نہیں
یہ سحر کا یقین اس آدمی کونہیں ہے جو زندگی کے آسان راستوں سے ہوکر گزرا ہے بلکہ یہ اس شخص کوہے جوزندگی کے دشوار گزار راستوں سے گزر کرآیا ہو۔ کلیات میر میں ہم کولاتعداد ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے میر کی زندہ دلی کا ثبوت بہم پہنچتا ہے۔ ان کے بہت سے اشعار میں مزاح کی چاشنی اس حدتک ہے کہ وہ اپنے آپ میں بڑی فراخ دلی سے ہنستے ہیں۔
پھرمیر آج مسجدِ جامع کے تھے امام
داغ شراب دھوتے تھے کل جانماز کا
میر نے اپنی زندگی اوروقت کی سختیوں کے سامنے کبھی ہارنہیں مانی اس لئے ان کے یہاں غم اٹھانے کاکام بہت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ میر نے اپنی شاعری میں عظمت انسانی کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے کلام میں غم اوردردمندی دبستان کی خصوصیت ہے۔ میر نے انسان اور عشق دونوں کا بلند تصور اپنی شاعری میں پیش کیاہے۔
                    تبسم پروین
                      ٭٭٭

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔